الفت ہے گراں خواب اکسانے سے لگتے ہیں۔ |
دل دیے خاطر ہم دیوانے سے لگتے ہیں۔ |
آنے والے کب آئیں کچھ معلوم نہیں ہے۔ |
ایسی ہی کیوں باتیں دہرانے سے لگتے ہیں۔ |
مجھ سے ملنے کی تجھے فرصت کب ملی ہے۔ |
کہہ دو ایسی باتوں زمانے سے لگتے ہیں۔ |
جان جاں زندگی بھر کے لیے غم ہجراں بہت ہے۔ |
داغ سے ہم دامن یہ چھپانے سے لگتے ہیں۔ |
تم سے ملاقات اک کی امید فقط کرتے ہیں۔ |
کیا وقت آ پڑا سو سو بہانے سے لگتے ہیں۔ |
پھر سچ کہہ ابھی جب کہ کلیجہ ہم رکھتے ہیں۔ |
شمع کے تو عاشق پروانے سے لگتے ہیں۔ |
معلومات