الفت ہے گراں خواب اکسانے سے لگتے ہیں۔
دل دیے خاطر ہم دیوانے سے لگتے ہیں۔
آنے والے کب آئیں کچھ معلوم نہیں ہے۔
ایسی ہی کیوں باتیں دہرانے سے لگتے ہیں۔
مجھ سے ملنے کی تجھے فرصت کب ملی ہے۔
کہہ دو ایسی باتوں زمانے سے لگتے ہیں۔
جان جاں زندگی بھر کے لیے غم ہجراں بہت ہے۔
داغ سے ہم دامن یہ چھپانے سے لگتے ہیں۔
تم سے ملاقات اک کی امید فقط کرتے ہیں۔
کیا وقت آ پڑا سو سو بہانے سے لگتے ہیں۔
پھر سچ کہہ ابھی جب کہ کلیجہ ہم رکھتے ہیں۔
شمع کے تو عاشق پروانے سے لگتے ہیں۔

0
52