زندگی کی صبح کا خورشیدِ تابندہ ہے تو
مر گئے سب لوگ لیکن بالیقیں زندہ ہے تو
ہے رگ و پے میں تری غیور عربوں کا لہو
فکرِ حرّیت کا واحد اک نمائندہ ہے تو
نعش سے تیری نہ آئے کیسے جنت کی مہک
دل قسم کھا کے کہے جنت کا باشندہ ہے تو
غزوۂ احزاب ہے، اور ساری دنیا ہے خلاف
روحِ احمد تجھ میں ہے رحمانی کارندہ ہے تو
تیری نسبت شجرۂ طوبیٰ سے جو مربوط ہے
مٹ کے رہ جائے گی دنیا اور پائندہ ہے تو

0
52