پھول کھلتے ہیں مگر یادِ خزاں باقی ہے
ساتھ کانٹوں کا بھی انجامِ جہاں باقی ہے
رنگ و خوشبو کی حقیقت نہ سنو موسم سے
اک چمن ہے جو مرے دل میں جواں باقی ہے
موجِ گلزار نے سب کچھ تو جلا ڈالا ہے
پر بہاروں کا کوئی رازِ نہاں باقی ہے
کارواں لوٹ گیا شام کے سائے لے کر
اک پرندے کی صدا، رنگِ سماں باقی ہے
۔
خود ہی مٹ جائے گا اک دن یہ فسوں کا عالم
اب نہ کانٹے نہ گل و باغِ جہاں باقی ہے
خواب دیکھے ہیں جو گلزار کی خوشبو کے لیے
ان میں اک خواب ابھی تک مرے ہاں باقی ہے
خالدؔ اس دل کی تپش گل کو جواں رکھتی ہے
ورنہ کانٹوں کا ہی ہر سمت سماں باقی ہے

0
2