غموں کے عہد میں کوئی تو ہم سے بات کرے
نظر ملائے ذرا اور التفات کرے
لبِ خموش سے کیا کچھ بیاں نہیں ہوتا
میں چاہتا ہوں تو آنکھوں سے دل کی بات کرے
مرے وجود میں شامل جو تیری ذات ہوئی
یہ دنیا کیسے الگ تیری میری ذات کرے
بچھڑ کے تجھ سے ہوں میں نیم جاں مری جاناں
مری بھلی ہو طبیعت اگر تو بات کرے
ہمارے عشق کی دنیا بھی ہے تذبذب میں
کبھی نفی کرے وہ تو کبھی ثبات کرے
اسی لیے تو عطائی غزل کمال کی ہے
تو لفظ لفظ میں اپنے صنم کی بات کرے
عمران عطائی ممبئی

0
103