پھر وہی ظلم کے بازار و گلی کوچے میں
حاکمِ وقت کے تیور میں وہ بدلے کی جھلک
تاجِ حاکم میں وہی زعم و خدائی کا غرور
پھر گلستاں میں بڑھی جاتی ہے شعلوں کی لپک
جس طرف دیکھیے آہوں کے شرارے پھوٹے
جس جگہ جائیے آہوں کی صدا آتی ہے
کس کے پندارِ خدائی نے یہ ڈھائے ہیں ستم
لبِ مظلوم پہ یہ کیسی دعا آتی ہے
اے خدا تیری خدائی کی قسم ہے تجھ کو
تیرے بندوں کو بھی ہوتا ہے خدا کا دعویٰ
ان خداؤں نے تو ہم پر وہ ستم ڈھائے ہیں
تیرے محشر سے بھی پہلے ہوا محشر برپا

0
42