بیٹھنے کالُک نیا ہے اور زمانہ بھی نیا
کیا نیا ہے یہ زمانہ مسکرانا بھی نیا
زُلف رخصا روں پہ لٹکی کرتی ہیں سن لو بیاں
بِن هَوا کے ہو جو هلنا تو ہلانا بھی نیا
ابرو ہیں شمشیر گویا کان کا آلہ نیا
ہا تھ کو تم دیکھئے چوڑی دکھانا بھی نیا
ہونٹ ساغر جسم بارش اور چہرہ کی حیا
اور جبیں کا حسن دیکھو جگمگانا بھی نیا
مختصر سا تذکرہ کچھ اور بھی کردوں ذرا
چشم ہیں شفاف اور اِن کو گھمانا بھی نیا
سادگی اُس کی تجھے بھی موه لیتی ہے زبیر
سادگی تو سادگی ہے چلبلانا بھی نیا

0
5