پوچھا تھا ہے تہذیبِ فرنگی کا ثمر کیا
معلوم نہیں کہتے ہیں اب اہلِ نظر کیا
جس میں ملے ہر دردِ مقدر کی دوا بھی
لے جاتا ہے اس رہ پہ بھی موسیٰ کا خضر کیا
ہم اہلِ خرد کی رہِ پرخار پہ ہیں اب
دیکھ دشت نوردی کا بھی ہوتا ہے اثر کیا
اس وادیِ پر خار کو ہے عزمِ مصمم
چلنا ہے تجھے پھر تو اگر کیا ہے مگر کیا
یہ اہلِ خرد چاہتے ہیں منزلِ امکاں
اے اہلِ خرد بولو تمہاری ہے ڈگر کیا
پوچھا تھا رہِ حسن سے انجامِ محبت
بولی رہِ اقرار سے تم کو ہے مفر کیا؟
فطرت کے لیے کوئی بناوٹ نہیں اچھی
تجھ حسنِ ازل کو بھلا خورشید و قمر کیا
جب چاہتے ہیں کرتے ہیں منمانی یہ اپنی
میرا بتِ کافر پہ چلے کوئی اثر کیا
بولا ہے کہ ماضی کے ستم یاد ہیں تجھ کو
بیدادیٔ موجودہ میں چھوڑی ہے کسر کیا

0
28