دل درد کے مدرسے سے اب تو اٹھتا نہیں |
اور یہ سبق مکتبِ غم کا جو رکتا نہیں |
عاشق کی بس ہے صدا ہرسو جو اڑتی چلے |
اس پر ستم ہے کہ تو بھی اس کو سنتا نہیں |
پہلے تو الفت میں مر جایا ہی کرتے تھے لوگ |
پہلے یوں چلتا تھا اب ایسا تو چلتا نہیں |
یاں خوابوں کو میرے کس کی ہے نظر یہ لگی |
پہلے وہ ملتابھی تھااب تو ملتا نہیں |
میری سدا تشنگی کو کیوں بڑھاتا ہے دن |
اک تونہ شب کٹتی ہے اور دن کہ ڈھلتا نہیں |
الفت میں لٹ جانا ہوتا ہے عبیدِِِ بے کس |
ورنہ تو پروانہ سرِ شمع جلتا نہیں |
معلومات