والدِ گرامی کی یادیں |
کلام ابو الحسنین محمد فضلِ رسول رضوی، کراچی |
تکلیفیں اٹھا کر بھی مجھے راحت دیتا رہا |
تکلیفیں اٹھا کر بھی مجھے راحت دیتا رہا |
میرا والد تو سدا مجھے الفت دیتا رہا |
کچھ پتا نہیں تھا برے کا مجھ کو ناں بھلے کا |
ہر پل ہر لمحہ وہ مجھ کو نصیحت دیتا رہا |
میں جب بھی پھسلا کہیں وہ تھامتا تھا مجھ کو |
ہر موڑ پہ آ کر مجھ کو ہمت دیتا رہا |
میں اندھیروں میں ہی بھٹکتا رہتا زندگی بھر |
روشن منزل کی طرف وہ اشارت دیتا رہا |
جب بھی کڑواہٹیں آجاتی تھیں کبھی زندگی میں |
وہی تھا جو مجھے ہر لمحہ حلاوت دیتا رہا |
نفرت ملتی رہی مجھ کو محبت کے بدلے |
لیکن وہ مجھے بس اپنی محبت دیتا رہا |
یا الہی جنت میں دے دےتو اس کو بلند جگہ |
ہمیں تیرے رستے کی وہ ہدایت دیتا رہا |
اب تک دے رہے ہیں لوگ بھی اس کی گواہی یوں |
کہ وہ ساری زندگی حق کی شہادت دیتا رہا |
نفرت تھی جھوٹ سے اس کو ہمیشہ کچھ ایسی |
ہر دم وہ ہم کو درسِ صداقت دیتا رہا |
روشن ہیں اس کی شرافت کی باتیں اب تک |
وہ تو زندگی بھر ہمیں نورِ شرافت دیتا رہا |
مرشد نے خلافت سے تھا نوازا شفقت سے |
وہ مریدوں کو ان کا ہی فیضِ ارادت دیتا رہا |
تھا مُحَدِّثِ أَعْظَمْ سے فیضان ملا اس کو |
فیضان سے ان کے سبھی کو بشاشت دیتا رہا |
بد مذہب تو اسے دیکھ کے بھاگتے تھے فوراً |
اپنوں کو وہ عشقِ نبی کی تمازت دیتا رہا |
خواجہ صدیق کا تھا وہ مریدِ صادق بھی |
فیضانِ چشت سے نورِ کرامت دیتا رہا |
ہاں فضلِ رسولِ سے کی بیعتِ رضْوی بھی |
رضْوِی فیضان کی سب کو طراوت دیتا رہا |
جب بھی آیا کوئی دشمن سامنے رضْوی کے |
بابا ہی تو سامنے تھا جو حفاظت دیتا رہا |
معلومات