حیف ہے اس پہ اسے کچھ بھی گوارا نہیں ہے۔
ایک ہم ہیں جیے بن کوئی بھی چارہ نہیں ہے۔
دیکھے جب آنکھ سمندر ہی سمندر دیکھے۔
سرے منظر تھا سمندر کہ کنارہ نہیں ہے۔
ہے مثل شب سیہ جس میں نہیں ہے کوئی دیا۔
کہ فلک ایسا بے نور اس پہ ستارہ نہیں ہے۔
منتظر ہے ابھی صورت یہ بے زاری کیوں ہے۔
سب سہارے تھے کوئی بھی تو ہمارا نہیں ہے۔
لب ہیں خاموش کہ ماضی جو تھا پر خواب ہوا۔
رگ جاں بر مستقلا کوئی اشارہ نہیں ہے۔
کیسی اب مشکلیں در پیش ہیں میرے ساتھی۔
کیسے کروٹ لوں کوئی اپنا سہارا نہیں ہے۔
کسی تشبیہ ادھاروں سے چلا کام کوئی۔
لب و لہجہ دکھا کس کس کو پکارا نہیں ہے۔

0
4