تیری رحمت کا طلبگار بھی ہوں
اور خطاؤں پہ شرمسار بھی ہوں 
تجھ سے مانگوں بھی تو کس منہ سے
کیا کروں میں کہ گنہگار بھی ہوں
پُر خطا نادِم و نالاں بھی ہوں
میرے ستار ! خطاکار بھی ہوں
سر کی نخوت سے پریشاں ہو کر
تیرے قدموں میں نگوں سار بھی ہوں 
دے شفا اپنے کرم سے مولیٰ
جاں گھٹی جاتی ہے بیمار بھی ہوں 
دل میں ہے گرچہ معاصی کا ہجوم
تیرا بندہ ہوں وفادار بھی ہوں 
رُخ سے پردہ یہ ہٹا لے پیارے
تیرا وحشی ہوں نظر وار بھی ہوں
مجھ کو اپنا تُو بنا لے پیارے
تیری اُلفت کا گِرِفتار بھی ہوں

12