تو چاند ستاروں سے گریزاں نہ ہوا کر۔ |
وہ دور افق پر ہے تو نازاں نہ ہوا کر۔ |
اپنی یہ نمائش کچھ کم کر دے اے جانم۔ |
اندر رہ کے باہر آویزاں نہ ہوا کر۔ |
سن دل کی صدا ایسے ارزاں نہ ہوا کر۔ |
آواز لگا کر خود ارزاں نہ ہوا کر۔ |
موسم ہے بہاریہ کتنے پھول ہیں نکھرے۔ |
رت بدلی ہے ایسے تو بھی ریزاں نہ ہوا کر۔ |
دل تیری گرفتاری سے آزاد نہیں ہے۔ |
اب قید رہے گا تو لرزاں نہ ہوا کر۔ |
سارا زماں ہر حال میں ہر طرح سے پرکھا۔ |
روکو اسے اب تو یوں لغزاں نہ ہوا کر۔ |
رکھ نرم یہ لہجہ تو وہ ہر بزم میں آئیں۔ |
سب باتیں ماضی کی ہیں نازاں نہ ہوا کر۔ |
پھر پھیلنے پر ہے تیری نیک نصیبی۔ |
میرے دلبر بات پہ سوزاں نہ ہوا کر۔ |
معلومات