تو چاند ستاروں سے گریزاں نہ ہوا کر۔ |
آواز کی ہے باہر ارزاں نہ ہوا کر۔ |
دل تیری گرفتاری سے آزاد نہیں ہے۔ |
اب قید رہے گا تو لرزاں نہ ہوا کر۔ |
جب یہ زماں ہر حال میں ہر طرح سے پرکھا۔ |
رو لو اسے اب تو یوں لغزاں نہ ہوا کر۔ |
ہو نرم یہ لہجہ تو وہ ہر بزم میں آئیں۔ |
وہ باتیں بن چکی ہیں نازاں نہ ہوا کر۔ |
پھر پھیلنے پر ہے تیری نیک ہی نیتی۔ |
میرے دل کر بات یوں سوزاں نہ ہوا کر۔ |
معلومات