تو چاند ستاروں سے گریزاں نہ ہوا کر۔
آواز کی ہے باہر ارزاں نہ ہوا کر۔
دل تیری گرفتاری سے آزاد نہیں ہے۔
اب قید رہے گا تو لرزاں نہ ہوا کر۔
جب یہ زماں ہر حال میں ہر طرح سے پرکھا۔
رو لو اسے اب تو یوں لغزاں نہ ہوا کر۔
ہو نرم یہ لہجہ تو وہ ہر بزم میں آئیں۔
وہ باتیں بن چکی ہیں نازاں نہ ہوا کر۔
پھر پھیلنے پر ہے تیری نیک ہی نیتی۔
میرے دل کر بات یوں سوزاں نہ ہوا کر۔

0
44