| ہمیں اب ترا غم چھپانا نہیں ہے |
| مگر حال دل کچھ سنانا نہیں ہے |
| نہ جانے وہ کیسا سکوں مانگتا ہے |
| کہ رو کر بھی دل کو رلانا نہیں ہے |
| نظر اس پہ پڑتی تو ہے اپنی لیکن |
| نظارہ ابھی وہ دکھانا نہیں ہے |
| تری چاہ میں خود عمر ہے گزاری |
| مگر اپنا احساں جتانا نہیں ہے |
| محبت تری میں یہ دنیا بھلائ |
| ترے سامنے بھی زمانہ نہیں ہے |
| یہ قسمت عجب اک تماشا بنی ہے |
| کہ ہنستا ہوں پر مسکرانا نہیں ہے |
| مرے جسم میں جان فیصلؔ ہے جب تک |
| اسے ہم نے تب تک بھلانا نہیں ہے |
معلومات