ہمیں اب ترا غم چھپانا نہیں ہے
مگر حال دل کچھ سنانا نہیں ہے
نہ جانے وہ کیسا سکوں مانگتا ہے
کہ رو کر بھی دل کو رلانا نہیں ہے
نظر اس پہ پڑتی تو ہے اپنی لیکن
نظارہ ابھی وہ دکھانا نہیں ہے
تری چاہ میں خود عمر ہے گزاری
مگر اپنا احساں جتانا نہیں ہے
محبت تری میں یہ دنیا بھلائ
ترے سامنے بھی زمانہ نہیں ہے
یہ قسمت عجب اک تماشا بنی ہے
کہ ہنستا ہوں پر مسکرانا نہیں ہے
مرے جسم میں جان فیصلؔ ہے جب تک
اسے ہم نے تب تک بھلانا نہیں ہے

0
18