نشاں زنجیر کا گر کوئی بھی پا جائے ہے مجھ سے |
ادا مجنونِ ماضی کی وہ یاد آ جائے ہے مجھ سے |
خدایا یہ ادائیں کیا قیامت ڈھاتی ہیں مجھ پر |
قصور سب مجھکو دیکر کے بھی شرما جائے ہے مجھ سے |
پڑا ہوں کب سے اس بت کا سگِ سنگ آستاں ہو کر |
مگر اس پر بھی وہ کافر یوں جھلا جائے ہے مجھ سے |
جلایا دامنِ ہر دل کو میرا شعلۂ گفتار |
جو روح القدس بھی یوں دیکھ گھبرا جائے ہے مجھ سے |
شرابیں نیم بازوں کی زہر سے کم نہیں لیکن |
نہ پیا جائے ہے مجھ سے نہ پھینکا جائے ہے مجھ سے |
بڑھے ہیں ہاتھ خود سے خود مرے نازک حسینوں پر |
ادھر یہ ناتوانی ہے ادھر وہ خود سپردی ہے |
نہ روکا جائے ہے ان سے نہ کھینچا جائے ہے مجھ سے |
پری زادوں کو آئے گا شعور و آگہی تب ہی |
یہ کارِ عاشقی بھی گر کبھی آ جائے ہے مجھ سے |
غمِ دل بھی یہ کیسا ہے کوئی پہلو نہیں آرام |
خدا کا شکر ہے یہ غم بھی چھوٹا ہے مجھ سے |
قدامت خوب ہے ظالم مگر جدت بھی تو لاؤ |
تماشائے ستم تو یوں نہ دیکھا جائے ہے مجھ سے |
خدا معلوم جب کہ لٹ چکی ہیں اپنی سب چیزیں |
یہ زادِ دل ہی کیوں آخر نہ چھوٹا جائے ہے مجھ سے |
بیماروں کے معالج کا معالج پھر بھی میں ٹھہرا |
مسیحا بھی ادائیں اپنی لیتا جائے ہے مجھ سے |
صدائے لن ترانی سے ہوا مایوس کیوں موسیٰ |
وہ کوہِ طور تو دیکھو سلگتا جائے ہے مجھ سے |
تو بد خو بے وفا و شمعِ بے گانی لگا مجھ کو |
تری حالت مگر کافر نہ دیکھی جائے مجھ سے |
معلومات