گو گلشنِ وفا یہاں برباد ہو گیا
ویرانۂ ستم مگر آباد ہو گیا
راہِ رقیب میں جو وہ ٹھوکر لگی تمہیں
دل تم کو ایسے دیکھ کے ناشاد ہو گیا
مایوس ہو گیا تھا یہ عشقِ ازل مگر
پھر اک طریقِ حسن یاں ایجاد ہو گیا
دنیا کے قتل سے بھی یہ معصوم ہی رہا
مجھ کو کیا جو قتل تو جلاد ہو گیا
مجنوں کو میں نے دیکھا جو زنجیر میں گھرا
بھولا ہوا سبق مجھے پھر یاد ہو گیا

0
32