گو گلشنِ وفا یہاں برباد ہو گیا |
ویرانۂ ستم مگر آباد ہو گیا |
راہِ رقیب میں جو وہ ٹھوکر لگی تمہیں |
دل تم کو ایسے دیکھ کے ناشاد ہو گیا |
مایوس ہو گیا تھا یہ عشقِ ازل مگر |
پھر اک طریقِ حسن یاں ایجاد ہو گیا |
دنیا کے قتل سے بھی یہ معصوم ہی رہا |
مجھ کو کیا جو قتل تو جلاد ہو گیا |
مجنوں کو میں نے دیکھا جو زنجیر میں گھرا |
بھولا ہوا سبق مجھے پھر یاد ہو گیا |
معلومات