==================== |
رازِ وَحْدَت میں اِک جَہاں دیکھا |
==================== |
رازِ وَحْدَت میں اِک جَہاں دیکھا |
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: |
کلام: ابو الحسنین محمد فضلِ رسول رضوی، کراچی |
"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" |
ہم نے وحدت میں اک جہاں دیکھا |
غیب سارا یہاں عَیاں دیکھا |
تھیں صَدائے اَلَستُ کی گونجیں |
ہر طَرَف اک عَجَب سَماں دیکھا |
تھا اَزَل میں بَلیٰ بَلیٰ کا شور |
ہے یہاں ہر سُو جو وَہاں دیکھا |
سب مَلَک سامنے جُھکے اُس کے |
اَوج پر آدَمِ کَلَاں دیکھا |
موج سے نوح کو ہے کیا خَطْرہ |
نُوح نے پُر خَطَر مَکاں دیکھا |
کُود کر آگ میں بتائے عِشْقْ |
عِشْقْ میں نَار کو جِنَاں دیکھا |
جو پڑا طُور پر کبھی جَلْوَہ |
ہے اُسی کی جَھلَک، جَہاں دیکھا |
کَربَلا میں حُسَین سے سن لو |
تیغ کو ہم نے اَرْمُغَاں دیکھا |
مست ہے دیکھ کر گُلُوں کو تُو |
وُہ کَہاں جِس نے گُل سِتَاں دیکھا |
اہلِ ظاہِر نِہَاں ، کَہاں دیکھیں |
آنکھ والے نے سب نِہَاں دیکھا |
دَم بَخُود اہلِ دِل یہاں دیکھے |
وہ کہیں دیکھ کر، کَہاں دیکھا |
جَب اَنَا کی صَدَا سُنَائی دی |
تو سَرِ دَار اِک بَیاں دیکھا |
دور بھی پاس بھی نشاں بے نِشَاں |
آنکھ والوں نے سب یہاں دیکھا |
وہ خَفی ہے قَرِیْب آکر بھی |
بولتا بھی وہ بے زَباں دیکھا |
جا بجا ڈھونڈتے رہے اس کو |
عین دل میں ابھی نشاں دیکھا |
مَحْوِ دِیدار ہو کبھی رضْوی |
پوچھنا پھر کَہاں کَہاں دیکھا |
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: |
از ابو الحسنین محمد فضلِ رسول رضوی کراچی |
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: |
معلومات