| ۱۔ سرکش ہے ہوا، سامنے جلتا ہوا دیا، کیا ہے؟ |
| تقدیر بدل، ہاتھ اُٹھا، مانگ لے دعا، کیا ہے؟ |
| ۲۔ اب عیاں حقیقت جو ہوئی، تیری انا کیا ہے؟ |
| بد مست بتا، راکھ بنی، تُو نے بچا کیا ہے؟ |
| ۳۔ آستیں کے اندر چھپ کے سانپ بیٹھے ہیں، |
| اک گھات لگائی، اندر جال، پھنسا کیا ہے؟ |
| ۴۔ ان مسخ شدہ پھولوں سے اندازہ لگاؤ تم، |
| یہ بستیٔ رسواؤں میں شرم و حیا کیا ہے؟ |
| ۵۔ کیوں رنگ چڑھا چہرے پہ، بتا کام ملا کیا ہے؟ |
| بس اتنا بتا، ہاتھ لگا تیرے، بھلا کیا ہے؟ |
| ۶۔ اب زندگی اپنی یوں بسر کر، تو بھلائی کر، |
| دن اچھے یقینا آئیں گے، حاصل ہوا کیا ہے؟ |
| ۷۔ تم درد تو پہچانو، بتاؤ تو دوا کیا ہے؟ |
| خاکی! ذرا الفاظ میں دیکھو تو لکھا کیا ہے؟ |
| ۸۔ پھولوں کی لَو اور خوشبو، خاروں سنگ جیا کیا ہے؟ |
| ہم پوچھتے ہیں آپ سے، بتلاؤ وفا کیا ہے؟ |
| ۹۔ ہر ایک ستم ڈھانے پہ تلا، جانے جفا کیا ہے؟ |
| ہر جرم روا ہے، اے خدا! بندہ بُرا کیا ہے؟ |
| ۱۰۔ ہر کام یہاں الٹا پڑا، اور سزا کیا ہے؟ |
| انصاف کے بن زندگانی میں بقا کیا ہے؟ |
| ۱۱۔ ظلمت میں دیا بن کے جلیں ہیں قندیلیں، |
| کر سب کا بھلا، انت بھلا، اپنا بھلا کیا ہے؟ |
| ۱۲۔ گر ہاتھ لگے، چھینا جھپٹ لینا خطا کیا ہے؟ |
| جام بھر کے پی، دیکھ پھر اس میں شفا کیا ہے۔ |
| ۱۳۔ ساقی کی نظر پر مت جا، اپنے کو پہچانو، |
| یہ خون کا دریا ہے، بتا رنگِ حنا کیا ہے؟ |
| ۱۴۔ کردار کو خود پرکھ کے تو پہچان، سمجھ جاؤ، |
| گر تیری نظر دیکھے نہ اچھا، تو بتا کیا ہے؟ |
| ۱۵۔ ہم بھی ہیں خطاکار یہاں، تم بھی خطاکار ہو، |
| یہ جھوٹ کا میلہ ہے، بتلاؤ وفا کیا ہے؟ |
| ۱۶۔ خاکی! یہ جہاں فانی ہے، سب خواب نرالا ہے، |
| اک روز حقیقت کھلے گی، پھر بتا کیا ہے؟ |
معلومات