وہ جو لب اپنے سیئے بیٹھا ہے
اک سمندر کو پئےبیٹھا ہے
منزلوں سے تمام گزرا ہے
غم وہ عالم کا لئے بیٹھا ہے
جس پہ آتش فشاں بنے ہو تم
وہ مباحث یہ کئے بیٹھا ہے
اس جہاں سے جو لیا تھا اسنے
سب زمانے کو دیئے بیٹھا ہے
خامشی اسکی یہ کہتی ہے اب
زندگی خوب جیئے بیٹھا ہے
شمس الرحمٰن علوی

0
26