نادان سمجھ مت مجھ کو یار نظر میں ہے |
نادان سمجھ مت مجھ کو یار نظر میں ہے |
کر لے تو ستم تیرا ہر وار نظر میں ہے |
چالاک بڑا بنتا ہے ہاتھ دِکھا کر تو |
اِس ہاتھ ملے گا وہ اِدبار نظر میں ہے |
مت پوچھو مری حالت ہر حال نبھالوں گا |
بے داغ مَرا تھا وہ بیمار نظر میں ہے |
انجام پہ ڈالے گا ظالم تو نظر کیسے |
اعمال ترے کی ہر پھٹکار نظر میں ہے |
کرتا ہے تباہی تو، اس کی نہ خبر کوئی |
راہوں میں مِرا چلنا ہر بار نظر میں ہے |
لفظوں کا اثر آنکھوں میں دیکھا کبھی تو نے |
ہر ایک الم، ہر اک گفتار نظر میں ہے |
الفاظ مِرے چبھتے ہیں کیسے تجھے پل پل |
مجھ پر کی جو طعنوں کی یلغار نظر میں ہے |
احباب رہیں خوش، رکھتے ہیں وہ خبر ساری |
ورنہ تَو کہاں خَستہ نادار نظر میں ہے |
تو لاکھ بنے غاصب ہر کام ترا جائز |
ہر چیز مگر میری ہر کار نظر میں ہے |
اڑتا ہے ہواؤں میں، پرواز تری اونچی |
ہرچال تری میرے ہشیار نظر میں ہے |
تو چونچ لڑاتا ہے ہر کام ترا ایسا |
سنبھال تو اپنی یہ منقار نظر میں ہے |
بھولوں گا تجھے کیسے ہر لمحہ رہے گا یاد |
تو نے جو دیا ہے وہ آزار نظر میں ہے |
کھیلے گا تو مجھ سے کب تک بھیجے گا اپنے لوگ |
دیکھی ہیں یہ کھیلیں ہر غدار نظر میں ہے |
رضْوِی کو سنائے پُر اسرار کہانی تو |
دیکھا ہے ترا جبہ دستار نظر میں ہے |
از ابو الحسنین محمد فضلِ رسول رضوی، کراچی |
معلومات