| چائے کو دل کا سکوں روح کی راحت کہیے | 
| نعمتِ رب اسے خالق کی عنایت کہیے | 
| چائے کو چائے نہیں آبِ تراوت کہیے | 
| اک جنوں کہیے اسے یہ اسے عادت کہیے | 
| چائے کے آگے کہاں کوئی ضیافت ٹھہری | 
| تین صدیوں سے رواں اس کی حکومت کہیے | 
| زعفرانی ہو کہ سادی ہو کہ ادرک والی | 
| اس کو ہر رنگ میں ہر روپ میں نعمت کہیے | 
| لغتِ عشق میں لکھا ہے کہ اس چاہے کو | 
| شبِ فرقت کے مریضوں کی ضرورت کہیے | 
| چائے محبوب کے ہاتھوں سے جو مل جائے کبھی | 
| جامِ جم کہیے اسے جامِ محبت کہیے | 
| درد سر ضعفِ بدن چشمِ زدن میں غائب | 
| اس کو کہیے نہ شفا بلکہ کرامت کہیے | 
| سرد راتوں میں لحافوں میں بس اک چائے ملے | 
| تو اُسے چائے نہیں جامِ حرارت کہیے | 
| کوئی کنجوس اگر چائے پلا دے جو کبھی | 
| معجزہ کہیے اسے جوشِ سخاوت کہیے | 
| چائے کو بیچنا کچھ کام نہیں ہے چھوٹا | 
| اونچے عہدے کے لیے اس کو ریاضت کہیے | 
| عین جاڑے میں جو اس چائے سے انکار کرے | 
| کچھ نہ کہیے اسے بس ایک جسارت کہیے | 
| چائے کے ساتھ اگر وائے نہ رکھے کوئی | 
| اس کو تہذیب کے مکتب سے خیانت کہیے | 
| کیا یہ ممکن ہے کہ ہو جائے بلا چائے پئے | 
| شاعری اور جسے آپ صحافت کہیے | 
| چائے کو آپ نہ چاہیں تو کوئی بات نہیں | 
| چائے کے چاہنے والے کو برا مت کہیے | 
| اب تو سالم کو پلا دیجیے اک چائے کڑک | 
| ورنہ اس ساری مشقت کو اکارت کہیے | 
    
معلومات