حقیقت سے ابہام ہوتے گئے ہیں |
مرے خواب نیلام ہوتے گئے ہیں |
جو محفل میں اک بار آئے تری وہ |
زبانِ زدِ عام ہوتے گئے ہیں |
اسے ہم نے جو مڑ کے اس بار دیکھا |
حیا سے وہ گلفام ہوتے گئے ہیں |
مسیحا سے جو زخم مجھ کو ملے وہ |
سبھی زخم انعام ہوتے گئے ہیں |
مرے خوں کے چھینٹوں کی ہے یہ کرامت |
کہ روشن درو بام ہوتے گئے ہیں |
اثر ہے یہ تیری ہی صحبت کا جاناں |
ہمیں شعر الہام ہوتے گئے ہیں |
مرے رازداں نے ردا جب اٹھائی |
عیاں ہم سرِ عام ہوتے گئے ہیں |
ہیں تیرے تو الفاظ ہی مثلِ مرہم |
دکھی دل تبھی رام ہوتے گئے ہیں |
ہیں نایاب محمؔود اہلِ وفا اب |
دعا دے کے بدنام ہوتے گئے ہیں |
کلام وسیم احمد محمؔود بٹ |
28 مارچ 2021 |
معلومات