مر چکی ہیں حسرتیں دل میں چھپے رازوں کے ساتھ
رو رہی ہے زندگی غمگین آوازوں کے ساتھ
پھر نگاہوں میں بچھڑنے کا وہ منظر ہے ابھی
یا تصور میں لپٹتا ہے وہ دروازوں کے ساتھ
رقص فرمانے لگی ہے زندگی کچھ اس طرح
پھر غزل آواز دیتی ہے نئے سازوں کے ساتھ
ہے لڑکپن کی نئی دہلیز پہ دل کا قدم
عشق کی دنیا میں پلنا چاہیے نازوں کے ساتھ
پردۂ زنگاری میں پوشیدہ کوئی روپ ہے
پھر مری سادہ دلی دیکھو فسوں سازوں کے ساتھ
منزلِ دار و رسن کی روشنی آئی تو ہے
حوصلوں کا کارواں ہے عزم پردازوں کے ساتھ
طبعِ آوارہ بھی ان جیسے قلندر میں رہی
حضرتِ ثانی ہوئے جو شعبدہ بازوں کے ساتھ
ثانی ارریاوی

0
55