مر چکی ہیں حسرتیں دل میں چھپے رازوں کے ساتھ |
رو رہی ہے زندگی غمگین آوازوں کے ساتھ |
پھر نگاہوں میں بچھڑنے کا وہ منظر ہے ابھی |
یا تصور میں لپٹتا ہے وہ دروازوں کے ساتھ |
رقص فرمانے لگی ہے زندگی کچھ اس طرح |
پھر غزل آواز دیتی ہے نئے سازوں کے ساتھ |
ہے لڑکپن کی نئی دہلیز پہ دل کا قدم |
عشق کی دنیا میں پلنا چاہیے نازوں کے ساتھ |
پردۂ زنگاری میں پوشیدہ کوئی روپ ہے |
پھر مری سادہ دلی دیکھو فسوں سازوں کے ساتھ |
منزلِ دار و رسن کی روشنی آئی تو ہے |
حوصلوں کا کارواں ہے عزم پردازوں کے ساتھ |
طبعِ آوارہ بھی ان جیسے قلندر میں رہی |
حضرتِ ثانی ہوئے جو شعبدہ بازوں کے ساتھ |
ثانی ارریاوی |
معلومات