سامنے میرے پھر سے گزرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں ۔ |
جب کہ بلانا نہیں تو بپھرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں۔ |
سارا ہی ضبط مٹا کر ہم بھی دیا جلتا بجھا کر چلے ہیں۔ |
اب کہ ہماری انا سے سدھرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں۔ |
گرچہ ہم صابر ہیں دکھا دو ایک جھلک دیدار کی تم۔ |
حوصلہ بڑھاے دل میں ٹھہرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں۔ |
میں ایسے دل دار پہ اپنی متاع جاں آفریں کر دوں گا۔ |
دلبرداشتہ دل سے نترنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں۔ |
میں نے بولا ضرور آ جاؤں گا تم ہوتے ہو پریشاں کیوں۔ |
اپنی آنکھوں سے ٹکرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں۔ |
تو اپنی زباں سے یہ ترانے سناتا ہے کب کے جہاں بھر کو۔ |
قیمتی وقت شے قیمتی نذرنے کے لیے پاس وہ آۓ کیوں۔ |
معلومات