ترا ہی نام لیتا ہوں کسی بھی نام سے پہلے
یہی اک کام کرتا ہوں کسی بھی کام سے پہلے
قیامت ان پہ ٹوٹے گی جو ٹوٹا گر بھرم ان کا
ذرا احساس کر لینا کسی انجام سے پہلے
یہ اندازِ عنایت اور یہ شیوہ بھی اُنہیں کا ہے
ستم کی انتہا کرتے ہیں وہ اکرام سے پہلے
کوئی ہے منتظر تیرا گھڑی بھر کو ٹھہر جانا
اگر جو لوٹ کر آئے کبھی تُو شام سے پہلے
یہ مت پوچھو گزاری کس طرح ہم نے شبِ فرقت
جگر کو رو چکے ہیں ہم دلِ ناکام سے پہلے
چلا تو شوق سے ہے تُو وہاں، حالات کی قاصد
خبر تھوڑی مگر لینا ذرا پیغام سے پہلے
نظر آتے ہیں ایسے جو، نہ سمجھو ایسا ویسا تم
ہمیں بھی آزما لینا کسی گلفام سے پہلے
بدلتے موسموں کے ساتھ بدلے رشتے ناطے سب
تھے کتنے مہرباں مجھ پر ترے الزام سے پہلے
کسی کی یاد کی خوشبو نے بے خود مجھ کو کر ڈالا
کبھی یوں بے کلی میں در جو کھولا شام سے پہلے
کہیں لوگوں کی باتوں میں نہ وہ آ جائیں اے زاہدؔ
مرا پیغام دے دینا، انہیں ابہام سے پہلے

0
31