یار کے نگر ہم اُدَّھم کِیا نہیں کرتے |
چاہے دُکھ جو مل جائےہم گلہ نہیں کرتے |
بے رخی تبسّم ہے کیوں مرے لئے ساجن |
اس طرح سے رنجوری تو دیا نہیں کرتے |
بدنظر کا رہتا ہے خوف ہر گھڑی دلبر |
اس لئے تو پنگھٹ پر ہاں مِلا نہیں کرتے |
تم کو پیار ہی گرچہ بے شُمار ہو جائے |
تب گھڑی گھڑی اِیذا یوں دیا نہیں کرتے |
کائنات میں جا کر دیدِ پیار سے دیکھو |
مرقدِ مُحِبًاں ہیں جو مٹا نہیں کرتے |
صرف اک اشارے سے تم جو دل دُکھاتے ہو |
اس طرح کسی کو بھی ہم جدا نہیں کرتے |
میرے جانے سے عالم اِس طرح کہے لازم |
کہ نہیں نگاہوں میں ہم رہا نہیں کرتے |
عقل کا تقاضا ہے باشعور کو بولے |
ہر عَمَل کو ہر حالت بَرمَلا نہیں کرتے |
اے رضؔی پریتم ہے اب تری نظر میں جو |
جو لگے بری اس کو وہ خطا نہیں کرتے |
معلومات