حق گوئی کیا ہوتی ہے یہ ہم کو نہیں معلوم
گر آہ بھی کیجیے تو یہ سر تن سے جدا ہے
سازش میں مرے کوئی رقیبوں نے کمی کی
اس شوخ سے پٹنے کا تو اپنا ہی مزہ ہے
اس شہرِ پر آشوب میں سناٹا ہے کیسا
لب سب کے مقفل ہیں وہ خاموش کھڑا ہے
اس بزمِ بتاں میں ہوئے بے آبرو کتنے
پھر بھی دلِ کمبخت میں غیرت نہ حیا ہے
پہلے کیا زندان میں پھر پہلو میں اپنے
یوسف بھی زلیخا پہ فدا ایسے ہوا ہے
کیوں پیرِ فلک کی مجھے اب ہوگی ضرورت
قائم جو مرے سر ترے گیسو کی گھٹا ہے
بے جا نہیں گر کہہ دیں اسے برقِ سماوات
ہے شبنم و بارود تو پھر بھی یہ بجا ہے

0
47