حق گوئی کیا ہوتی ہے یہ ہم کو نہیں معلوم |
گر آہ بھی کیجیے تو یہ سر تن سے جدا ہے |
سازش میں مرے کوئی رقیبوں نے کمی کی |
اس شوخ سے پٹنے کا تو اپنا ہی مزہ ہے |
اس شہرِ پر آشوب میں سناٹا ہے کیسا |
لب سب کے مقفل ہیں وہ خاموش کھڑا ہے |
اس بزمِ بتاں میں ہوئے بے آبرو کتنے |
پھر بھی دلِ کمبخت میں غیرت نہ حیا ہے |
پہلے کیا زندان میں پھر پہلو میں اپنے |
یوسف بھی زلیخا پہ فدا ایسے ہوا ہے |
کیوں پیرِ فلک کی مجھے اب ہوگی ضرورت |
قائم جو مرے سر ترے گیسو کی گھٹا ہے |
بے جا نہیں گر کہہ دیں اسے برقِ سماوات |
ہے شبنم و بارود تو پھر بھی یہ بجا ہے |
معلومات