ہم آج خود سے غیروں کی طرح مل رہے ہیں |
نفرت میں کس قدر ہم آگے نکل رہے ہیں |
حساس دل جو رکھتے تھے وہ چلے گئے ہیں |
وحشی زمانے کے سورج کو نگل رہے ہیں |
ٹھہری فضول شے اب دنیا میں ہے مروت |
معیار زندگی کے سارے بدل رہے ہیں |
محموؔد آج خود انساں بن چکا درندہ |
سب جانور بنے لاشوں پر اچھل رہے ہیں |
تجھ سے درندگی بھی شرمانے لگ پڑی ہے |
یہ کون ہیں جو بن کر انسان چل رہے ہیں |
انسان کا ہوا چہرہ کس قدر بھیانک |
اعصاب دیکھنے سے تجھ کو ہو شل رہے ہیں |
ارزاں لہو کو ابنِ آدم کا دیکھ اتنا |
سیلِ رواں کی صورت آنسو نکل رہے ہیں |
آواز میں قیامت کا کرب اک چھپا تھا |
اس کی صدا سے پتھر دل بھی پگھل رہے ہیں |
تیرے ہی قتل پر تھا ابلیس بھی یہ بولا |
عصمت کے اب جنازے ہر دم نکل رہے ہیں |
خاموش ہوں مگر سن سکتا ہوں میں سبھی کو |
آہوں کو نالوں کو جو دل سے نکل رہےہیں |
مردہ ضمیر بستی مردہ ضمیر باسی |
یہ راستے کہاں کو میرے نکل رہے ہیں |
قسمت میں ہیں حوادث اب میری اور کتنے |
کچھ تو بتاؤ مجھ کو کب دن بدل رہے ہیں |
کلام : وسیم احمد محموؔد بٹ |
معلومات