عشق جو دار تک نہیں پہنچا
اوج کردار تک نہیں پہنچا
رنگ ہو نور ہو کہ مہ پارہ
چشم مے خوار تک نہیں پہنچا
اس کا کھلنا عبث ہے گلشن میں
گل جو دستار تک نہیں پہنچا
کوئی طائر بھی خوش نوائی میں
اس کی گفتار تک نہیں پہنچا
دل دیا بے طرح جلا شب بھر
اشک خوں بار تک نہیں پہنچا
نالہ کرتا تھا رات بھر ناصرؔ
آہ بیمار تک نہیں پہنچا

21