کچھ کام ہم نکالیں گے راز و نیاز سے |
پھر گفتگو کریں گے ابھی محوِ ناز سے |
محمود دل لگائے نہ کیوں کر ایاز سے |
مطلب ہی جب نہیں ہے نشیب و فراز سے |
اہلِ نظر بھی کہہ دیں جسے نغمہِ حیات |
آواز وہ نکلتی ہے ثانی کے ساز سے |
میری حقیقتوں سے جسے یوں گریز ہے |
آگاہ وہ کیوں ہوگا ہمارے بھی راز سے |
تیری نگاہِ شوخ اجالے تو کر گئی |
کچھ تیرگی بھی لوں تری زلفِ دراز سے |
یہ رزم و بزم ہی نہیں اپنی فغاں کی جا |
دنیا کو گرم رکھا ہے سوز و گداز سے |
دل نے سمجھ لیا ہے کہ معبود کا ہے فرق |
کعبہ کلیسا دیر کے اس امتیاز سے |
پھر دکھ رہے ہیں آج مجھے جلوہ ہائے دوست |
پھر سے الجھ رہی ہے حقیقت مجاز سے |
پر جوش ہے شباب تو جوبن پہ ہے بہار |
کچھ زخم مانگتے ہیں اسی دل نواز سے |
معلومات