قطرہ قطرہ لہو ٹپکتا ہے
تب ستارہ کہیں دمکتا ہے
آرزو دم دبائے بیٹھی ہے
خواب شعلہ لیے لپکتا ہے
آنکھ میں اس قدر سکت ہی نہیں
دل اُسے جیسے دیکھ سکتا ہے
وقت کی بندشوں سے ہے آزاد
وہ کوئی دم پلک جھپکتا ہے
اُس کی جھولی میں جب سے ہیں ہم لوگ
دامنِ زندگی مہکتا ہے
مسکراتا ہے اُس کے روبرو دل
اور تنہائی میں بلکتا ہے
کتنی بے نور ہو گئی تھی زمیں
آسماں روشنی چھڑکتا ہے
دل نے امید باندھ لی لیکن
رخ سے پردہ کہاں سرکتا ہے
ثانی ہنس ہنس کے پڑھ رہے ہیں غزل
لفظ در لفظ غم جھلکتا ہے

0
10