اس عاشقی میں اپنا ہوتا ہے حال کیا کیا
سر پر ہمارے دیکھو آیا وبال کیا کیا
کس چال کس ادا سے بدلے ہے پینترا وہ
اور ہم نے اپنے دل میں باندھے خیال کیا کیا
کیا دار کے بنا ہی بسمل شہید ہوگا؟
ابرو ہیں اس کے کیسے ہیں خد و خال کیا کیا
پھر آ نہ جائیں اس پر انگڑائی کی بہاریں
شاخِ بدن غضب ہے اور اس پہ ڈال کیا کیا
اس کھال میں چھپے ہیں انگارے کیسے کیسے
اف اف ترے بدن پر چڑھتی ہے کھال کیا کیا
یہ کالی کالی زلفیں اس پر یہ خم قیامت
یہ آنکھ کیا نشیلی یہ لب ہیں لال کیا کیا
جب رب نے خود دیا ہے تجھ کو قوامِ احسن
درماندہ سا یہ شاعر دے گا مثال کیا کیا
مرتے ہیں جو بھی اس کو بہرِ شفا ہیں پیتے
جامِ دہن سے تیرے ٹپکے ہے رال کیا کیا

0
53