یاد آتا ہے بہت ہم کو جلانا دل کا
ہائے وہ زخم وہ راتیں وہ ستانا دل کا
خود کو وحشت میں کیا ہم نے تماشا آخر
کھو دیا ہم نے جسے تھا وہ خزانا دل کا
جو نظر تم سے ملی مجھ کو نہ کچھ ہوش رہا
اتنا آسان ہے کیا تم سے ملانا دل کا
نہ ملا اور کوئ نہ گئے غیروں کے پاس
کوئے جاناں کو بنایا ہے ٹھکانا دل کا
ہم نے ہر درد کو ہنستے ہوئے اپنایا ہے
تم کو معلوم کہاں درد پرانا دل کا
تھا بہت ہم کو گلہ ان سے کہ وہ آتے نہیں
ان کا آنا ہی ہوا اصل میں آنا دل کا
تیرے رخسار پہ میں لاکھ تھا شیدا اور پھر
تیری زلفوں کی چمک ان پہ وہ گانا دل کا
کچھ ملاقاتیں تھیں اور باتیں تھیں کچھ کہنے کو
ان سے ملتے ہی وہ پر ہاتھ نہ آنا دل کا
فیصلؔ ان سے بھی کہو ہم کو پکاریں اپنا
ان کو پھر ہم نے جو ہے حال سنانا دل کا

0
28