ہے آج گلستان میں عنوانِ سخن پھول
ہر پھول فدا جس پہ وہ ہے جانِ چمن پھول
قدرت نے بنایا ہے جسے رشکِ عدن پھول
سر تا بقدم ہے تنِ سلطانِ زمن پھول
لب پھول دہن پھول ذقن پھول بدن پھول
ہو عرصہِ محشر میں تری دید سے تن پھول
میزان پہ اعمال بنیں سب مِنَ و عَن پھول
سب درد پرے ہوں بنے ہر داغِ من پھول
صدقے میں ترے باغ تو کیا لائے ہیں بن پھول
اس غنچہ ءِ دل کو بھی تو ایما ہو کہ بن پھول
دل ہے پَھٹا اور یہ کسی سے نہیں سِلتا
سکھ چین لُٹا ہے جو کہیں پر نہیں مِلتا
اک پھول خوشی کا بھی یہاں تو نہیں کھِلتا
تِنکا بھی ہمارے تو ہلائے نہیں ہلتا
تم چاہو تو ہو جائے ابھی کوہِ مِحَن پھول
شہروں میں نرالا مرے گل کا ہے مدینہ
اس شہر میں ہی رَحمتِ رب کا ہے زینہ
بٹتا ہے یہاں نعمتوں کا روز خزینہ
واللہ جو مل جاے مرے گل کا پسینہ
مانگے نہ کبھی عطر نہ پھر چاہے دلہن پھول
دنیا میں تو ہر چیز میں ہے عیبِ کثافت
ملتا ہی نہیں تجھ سا کہیں عینِ نزاہت
تو کیسے کہوں میں کہ ہے اُس شی میں شباہت
دل بستہ و خوں گشتہ نہ خوشبو نہ لطافت
کیوں غنچہ کہوں ہے مرے آقا کا دہن پھول
ہر عضو یوں جگ مگ کرے جیسے ہو رخِ صُبْح
بے عیب ہے وَالّٰلہ نہ ہے نقص نہ ہی قُبْح
جو عیب تلاشے ، لگے اس آنکھ میں تو رُمْح
شب یاد تھی کن دانتوں کی شبنم کہ دمِ صُبْح
شوخانِ بہاری کے جڑاؤ ہیں کِرَن پھول
بے مثل وہ تصویر خدا نے ہے بنائی
تشبیہِ حقیقی کو جہاں تک نہ رسائی
اعجاز کی ہر عضو میں یوں جلوہ نمائی
دندان و لب و زلف و رُخِ شہ کے فدائی
ہیں دُرِّ عدن لعلِ یمن مشکِ ختن پھول
سب راز بلندی کے نِہاں ہیں قَدِ شہ میں
اَنگُشْت کے ثابت ہیں نشاں چَرْخ کے مہ میں
ہوتے ہیں ستارے بھی فدا قدموں کی رہ میں
بُو ہو کے نہاں ہوگئے تابِ رُخِ شہ میں
لو بن گئے ہیں اب تو حسینوں کے دہن پھول
جب محوِ سفر ہوں میں سوئے شہرِ خموشاں
اس وقت نگہبان ہو میرا شہِ خوباں
پھر میرے گناہوں کے دفاتر ہوں پنہاں
ہوں بار گنہ سے نہ خجل دوشِ عزیزاں
للہ مری نعش کر اے جان چمن پھول
تجھ کو اے فلک ناز ہے سورج کی ضیا کا
چرچا ہے بڑا تیری ، ستاروں کی فضا کا
آ دیکھ ذرا جلوہ مہِ ارضِ خدا کا
دل اپنا بھی شیدائی ہے اس ناخن پا کا
اتنا بھی مہِ نو پہ نہ اے چرخ کہن پھول
سب درد فنا کر دے غمِ عارضِ شہ میں
ہر چیز بھلا ، جی لے غمِ عارضِ شہ میں
سب نقش مٹا دل سے غمِ عارضِ شہ میں
دل کھول کے خوں رولے غمِ عارض شہ میں
نکلے تو کہیں حسرت خوں نا بہ شدن پھول
ہے گُل میں اثر دَرْدِ مدینہ کا جو ہے آج
کیا ساتھ مِلا فَرْدِ مدینہ کا جو ہے آج
کیا رنگ چڑھا وَرْدِ مدینہ کا جو ہے آج
کیا غازہ مَلا گَردِ مدینہ کا جو ہے آج
نکھرے ہوئے جوبن میں قیامت کی پھبن پھول
میدانِ قیامت میں مصیبت ہے جاں پر
حامی ہمیں کوئی نہیں ملتا ہے وہاں پر
اس پیاس میں پانی کے لیے جائیں کہاں پر
گرمی یہ قیامت ہے کہ کانٹے ہیں زباں پر
بلبل کو بھی اے ساقی صہبا و لبن پھول
ہے کون جو میرے گنہ کا بوجھ اٹھائے
فکروں کے بھنور سے جو مجھے پار لگائے
بس آس ہے تیری کہ مرا کام بنائے
ہے کون کے گریہ کرے یا فاتحہ کو آئے
بیکس کے اٹھائے تری رحمت کے بھرن پھول
احباب چلے چھوڑ کے جب رستے کٹھن آئے
اے کاش ہو کوئی جو مری آس بندھا جائے
تنہا ہوں پریشاں یہ شبِ غم کہیں ٹل جائے
دل غم تجھے گھیرے ہیں خدا تجھ کو وہ چمکائے
سورج ترے خرمن کو بنے تیری کرن پھول
قرآن میں مدحت ہے افرادِ حرم کی
جن کی نبی سے نسبتیں ہیں پاک جنم کی
خیرات جہاں سے ملی رضوی کو قلم کی
کیا بات رضا اس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول
تضمین نگار
ابو الحسنین محمد فضل رسول رضوی
نور حمزہ اسلامک کالج ،گلشن معمار ، کراچی
4 رجب المرجب 1447ھ
25 دسمبر 2025ء
بروز جمعرات
بارہ بج کر سینتیس منٹ

7