اس صبر سے بھی بڑھ کر دولت نہیں تو کیا ہے
دل چپ وہ حشرِ جلوہ دم بھر نہیں تو کیا ہے
یہ حسنِ خود نما بھی حوروں سے کم ہو کیوں کر
صورت تری پری کا پیکر نہیں تو کیا ہے
میرے درونِ خانہ یہ حشر کیوں ہے برپا
وہ بے وفا جگر کے اندر نہیں تو کیا ہے

0
29