| روِش یہ دیکھ مرے دل میں بےقراری ہے | 
| کہیں پہ ظلم کہیں پر سکون طاری ہے | 
| کہیں پہ بیعتِ دنیا ہی دینداری ہے | 
| کہیں پہ جذبہِ ایماں ہے جاں نثاری ہے | 
| کہیں پہ لوگ ہیں مدہوش اپنی دنیا میں | 
| کہیں پہ لاشیں ہیں بچّوں کی آہ و زاری ہے | 
| کہیں پہ جشنِ مسرّت ہے شادیانے ہیں | 
| کہیں ستم ہے مصیبت ہے اشک باری ہے | 
| کہیں پہ رات کا مطلب سکون و آسائش | 
| کہیں پہ ڈوبنا سورج کا جاں پہ بھاری ہے | 
| لگی جو آگ تو بچّے بھی جل کے خاک ہوئے | 
| فضا میں درد ہے خجلت ہے شرم ساری ہے | 
| اہم امان ہے اپنی یا نصرتِ مظلوم | 
| یہ جنگ زندہ ضمیروں میں کب سے جاری ہے | 
| چلو یہ سوچ کے ہی ظلم کے خلاف اٹھو | 
| ہے آج اُن پہ مصیبت کل اپنی باری ہے | 
| جواب اس کا ہمیں خود ہی ڈھونڈنا ہوگا | 
| اب ایسے وقت میں کیا اپنی ذمےداری ہے | 
| جو سو رہا ہے وہ اپنا ضمیر ہے سالم | 
| جو مر رہی ہے وہ انسانیت ہماری ہے | 
    
معلومات