ان کے ہی دم سے آج بھی رونق ہے طور کی |
بد گوئی کیجیے نہ ہمارے حضور کی |
آتش بلب ہوں آج نہ ٹوکے مجھے کوئی |
دیکھے کوئی کیا ہو گئی رنگت حضور کی |
سرِّ نہاں سے ہم نے جو پردہ اٹھا دیا |
یوں بک رہا ہوں جیسے ہو آواز صور کی |
نغمہ مرا ہے سازِ ازل میں ڈھلا ہوا |
گر ٹوکتا ہے کوئی تو غلطی ضرور کی |
دشتِ فنا سے گل سبھی رخصت ہوئے زبیر |
دیکھوں گا کب کو ہوتی ہے رحلت حضور کی |
عمرِ عزیز کٹ گئی کافر کے ہجر میں |
لیکن اے ہمنشیں یاں عنایت ہے حور کی |
اس نیلگوں فضا میں کسی کا ہے عکس دیکھ |
ہر ذرۂ زمین میں حسرت ہے طور کی |
ہر ایک صفحہ میں ہے حکایت بھی موت کی |
پڑھ وہ کہ جس میں بات ہو یوم النشور کی |
فطرت ہے آج خود کے ہی خالق سے منحرف |
آزر میں بت میں آج کیا نسبت ہے دور کی |
میری ہی ٹھوکروں میں زمانہ ہے رات دن |
وہ خشتِ آستان بھی ٹھوکر سے چور کی |
خود کو سمجھ کے زمیں آسماں کیا |
اپنی ادا میں الجھا یہ حالت غرور کی |
معلومات