دل اٹھ کہ محوِ ناز سے کچھ گفتگو کریں |
دل میں گھری پکار کو اب چار سو کریں |
بت کو خدا بنا کے اسے پوجتے رہیں |
یعنی کہ عاشقی میں ذرا پھر غلو کریں |
یہ عشق کی نماز کبھی ہوگی پر خشوع |
حسنِ کرشمہ ساز میں چل کر وضو کریں |
زندہ کریں پھر حسن و محبت کے نام کو |
چل کر کے گرم طور پہ اپنا لہو کریں |
پھر راہِ دل فریب کی ہم خاک چھان لیں |
پھر سوزنِ شرار سے دامن رفو کریں |
ہوگی نہ ختم تجھ سے جو عزت ملی مجھے |
ہر چند بدگماں مجھے بے آبرو کریں |
اس بے پناہ حسن کو اک طورِ آتشیں |
اس کی نگاہِ ناز کو جام و سبو کریں |
پھر دیں گلی میں ہم اسے آواز نو بہ نو |
پھر جراتِ پکار ہم آشفتہ ہوٗ کریں |
لازم نہیں کہ ہم کو ملے پھر وہی جواب |
مثلِ کلیم جلنے کی پھر آرزو کریں |
سجدے سے آفتاب ہوا ذرۂ زمیں |
ٹھوکر سے آسمان کو اب تو بہ تو کریں |
مایوس کو امید کی پٹری پہ ڈال دیں |
ہم زندہ پھر سے درسِ ولا تقنطوا کریں |
کھوئیں متاعِ ہستی کو جو اس نے دی ہمیں |
اور کھوئی سی متاع کی پھر جستجو کریں |
اس بارگہ میں ضعف کی طاقت رہی زبیر |
اب عذرِ ضعف رکھتے ہی سجدہ سہو کریں |
معلومات