اس طرح کے پیچ و خم پر اور بھی ماتم ہوا |
تیرا گیسو جتنا بھی سلجھایا یہ برہم ہوا |
اک جہاں اس حسن کے سجدے میں جھکتا رات دن |
اور میرے عشق کے پیچھے یہ اک عالم ہوا |
فاصلۂ دل بھی کیسا دل کو دیتا ہے فریب |
دور جتنے ہم ہوئے ہیں اتنا ہی یہ کم ہوا |
آتشِ دل نے گرائی آنسوؤں کی اک لڑی |
آج پھر سے اختلاط شعلہ و شبنم ہوا |
جیسے جیسے ساری دنیا قبضے میں آتی گئی |
دور اپنی فطرتوں سے اور بھی آدم ہوا |
یہ عجب شجرہ ہے کاٹو جتنا یہ بڑھتا ہے اور |
اس ستم پر دل تو میرا اور بھی پر دم ہوا |
تجھ سے ہی تھی یہ کشاکش تجھ سے ہی تھی چپقلش |
ہے عجب کہ تو بھی آخر کو مرا ہمدم ہوا |
معلومات