ملت کی زبوں حالی پہ کچھ عرض کروں تو
اربابِ قیادت مجھے کہہ دیتے ہیں گستاخ
اس دورِ فراعین میں اب بھی مری جرات
کرتی ہے عبور راہِ جنوں وادیِ سنگلاخ
اب بھی تروتازہ ہے مرا غنچۂ امید
اب بھی چمنِ دہر میں موجود ہری شاخ
کہ ناخدا وہ کشتیِ ملت کے ہوئے ہیں
معلوم نہیں جن کو سفینے میں ہے سوراخ

0
44