میں نوا پرجوش ہوں تیری صدا شر شوریدہ
میں بصیرت رکھتا ہوں تو آوازِ غلطیدہ۔
میں راز جہاں ہوں سوچِ کن فیکوں ہوں میں۔
میں جہاں ہوں یہاں ہوں تیری مثلِ فہمیدہ۔
تو دلیل فضول سی ہے اک اب پھر آوارہ۔
خود خار ہوا تو انکاری رہ رنجیدہ۔
خصلت سچی انداز میں گفتگو کتنی اچھی
کوشش جتنی ہے مثلِ چشمِ عم دیدہ۔
رحمت امید طلب ظل اللہ طلب ہوں میں
سب ظاہر تو غافل میں کامل سنجیدہ۔
تو بتوں کا پجاری تیرا قالب بھاری ہے
محمود کی ریت ہوں بت شکن ایماں خوابیدہ۔
تو اک بلبل ہے گلوں کی پرستش میں گم ہے
میں گلوں کو کشید کے لیتا ہوں عرق یہ پوشیدہ۔
میں ندائے وقت ہوں سوزِ ایماں سازِ جاں ہوں
مانند حباب ہوا میں بحرِ پوشیدہ۔
پابند تو قید ہے روگ نے عاری کیا تو ہے
دریائے عشق میں غرق ہوا ہوں نادیدہ۔
کرتا ہوں عبودیت میں یگانہ پسِ منظر۔
رہتا ہوں مگن اب مثلِ بادِ گرویدہ۔

0
1