"درِ حسین سے جو فیض یاب ہو جائے"
زمانے بھر میں وہی کامیاب ہو جائے
علی کے لعل کی نسبت جسے ہوئی حاصل
وہ دینِ حق کا حسیں ماہتاب ہو جائے
ادا حسین کی دنیا میں جو بھی اپنائیں
خدا کا اس پہ کرم بے حساب ہو جائے
جہاں کی نعمتیں قدموں میں آئیں گی ساری
نگاہِ فیض کا جو انتخاب ہو جائے
جہاں کی نعمتیں قدموں میں اس کے آئیں گی
نگاہِ فیض کا جو انتخاب ہو جائے
جسے بھی آل سے سرکار کی محبت ہے
عقیدتوں کی کھلی وہ کتاب ہو جائے
جو جان و مال سبھی کچھ نثار ان پہ کرے
اسی کے واسطے ہر اک ثواب ہو جائے
دعا ہے دل کی کسی دن کسی بھی لمحے میں
سخی غلام ہے ان کا خطاب ہو جائے

0
85