یادِ ماضی یارِ ماضی سب کے سب ماضی بنے
ماضی بھی ماضی رہے اور حال بھی ماضی بنے
جو تھا گزرا جو ہے گزرے جو گزر جائے گے سب
آنے والے سارے دن جاتے ہوئے ماضی بنے
یہ جہاں ماضی میں ہے اور ہم بھی ہے ماضی میں بن
رب نے جب کُن کہہ دیا ہم قیدیِ ماضی بنے
ہر کوئی اپنی جگہ ہے اک کہانی کی کتاب
جو بھی آئے ہے یہاں وہ قصہِ ماضی بنے
دن گزرتا جا رہا ہے رات ڈھلتی جا رہی
ہر گزرتے پل میں سے ہر ایک پل ماضی بنے
دیکھ لینا تم بھی شامی شام ہوتے اک نظر
شام ڈھلتے رات ہو گی اور پھر ماضی بنے

0
105