کبھی جواب میں رکھ کر کبھی سوال کے ساتھ |
تجھے خیال میں لاؤں کئی خیال کے ساتھ |
ٹھکانہ تھا ہی نہیں کوچۂ ملامت میں |
کیا ہے عشق کو رخصت بڑے ملال کے ساتھ |
کسی اصول کا پابند کہاں رہا ہے جنوں |
ہوا ہے وا در امکاں اسی محال کے ساتھ |
شب وصال کی یادیں تو شام ہجر کے غم |
ہمارا ماضی ہے وابستہ تیرے حال کے ساتھ |
اسی کی جلوہ گری ہے ہر ایک پیکر میں |
ہے بام و در سے پرے دشت خد و خال کے ساتھ |
حریف جن و ملک جانشین آدم ہوں |
سو مجھ میں نقص نکالو مرے کمال کے ساتھ |
معلومات