کبھی جواب میں رکھ کر کبھی سوال کے ساتھ
تجھے خیال میں لاؤں کئی خیال کے ساتھ
ٹھکانہ تھا ہی نہیں کوچۂ ملامت میں
کیا ہے عشق کو رخصت بڑے ملال کے ساتھ
کسی اصول کا پابند کہاں رہا ہے جنوں
ہوا ہے وا در امکاں اسی محال کے ساتھ
شب وصال کی یادیں تو شام ہجر کے غم
ہمارا ماضی ہے وابستہ تیرے حال کے ساتھ
اسی کی جلوہ گری ہے ہر ایک پیکر میں
ہے بام و در سے پرے دشت خد و خال کے ساتھ
حریف جن و ملک جانشین آدم ہوں
سو مجھ میں نقص نکالو مرے کمال کے ساتھ

0
27