حشر سے پہلے ہی محشر رونما ہو جائے گا
آدمی سے آدمی کا فاصلہ ہو جائے گا
ظالموں کا ظلم بھی اک دن فنا ہو جائے گا
اہلِ حق کا جب سیاسی دبدبہ ہو جائے گا
حسن کی فطرت میں شامل بے وفائی ہی رہی
ایک دن محبوب میرا بے وفا ہو جائے گا
یہ سخن کی منزلیں در اصل میں شمشیر ہیں
دھیرے دھیرے چلتا جا تو تجربہ ہو جائے گا
فکر کو بالیدگی دے علم کی بنیاد پر
دیکھنا پھر اے سخنور تو بڑا ہو جائے گا
میں نظر انداز کرنے پر اتر آؤں اگر
دیکھتے ہی دیکھتے تو بھی خفا ہو جائے گا
جو ہنر استاد کو ہے، اے عطائی ایک دن
رب کی رحمت سے تجھے بھی وہ عطا ہو جائے گا

83