سنیے آج ہی ملیے حضور یوں کل تک وعدہ نہیں کر سکتے۔ |
عمر رواں آہستہ چل جذبات اعادہ نہیں کر سکتے۔ |
آؤ سنور جائیں مشکل یہ سفر ہے مسئلہ حل کرتے ہیں۔ |
حد اندر رہ کم از کم یہ گناہ زیادہ نہیں کر سکتے۔ |
جو پلے ہوں ظلمت میں کیا جانیں لدنی کی لذتیں یکسر۔ |
سامنا کب کرتے ہیں جھوٹے لوگ لبادہ نہیں کر سکتے۔ |
لوگ ڈرے رہتے ہیں پورا کوئی وعدہ نہیں کر سکتے۔ |
فصل پکاتے ہیں نقصان پھلوں کا مبادہ نہیں کر سکتے ۔ |
دل دھڑکے رہیں جام یہ چھلکے رہیں ساغر کھنکے رہیں ساقی۔ |
تازہ حسن رکھنا ہے بناؤ سنگھار کو سادہ نہیں کر سکتے۔ |
لا کے کہاں پر چھوڑا مدتوں ربط رہا پل بھر میں توڑا۔ |
میرا دل یکدم بوجھل ہے بوجھ یوں لادا نہیں کر سکتے۔ |
وقتی بے رحمی موجوں سے بچ جاتے ہیں لوگ سیانے اکثر۔ |
ہم بر وقت یہ فیصلہ کرتے ہیں وہ ارادہ نہیں کر سکتے۔ |
جب جذبات مچلتے ہیں ہم خود ہی سنبھل کر رکھتے قدم ہیں۔ |
طاقت رکھتے ہیں اتنی مگر سختی کا ارادہ نہیں کر سکتے۔ |
ہو سورج کی تمازت گھپ اندھیر ہو اب کچھ خوف نہیں ہے۔ |
اپنی آن پہ مر مٹ سکتے ہیں کر مر یادا نہیں کر سکتے۔ |
قوموں پر جو عذاب اترتے ہیں حق سے رو گردانی کرتے ہیں۔ |
غافل رہتے ہیں دامن اپنا جو کُشادہ نہیں کر سکتے۔ |
سوچ بنی ہے کیسا مزاج رچا ہے ہاتھ کو ہاتھ دبا کھائے۔ |
جب تک بات سمجھ میں نہ آئے سوال افادہ نہیں کر سکتے۔ |
معلومات