سنیے آج ہی ملیے حضور یوں کل تک وعدہ نہیں کر سکتے۔
عمر رواں آہستہ چل جذبات اعادہ نہیں کر سکتے۔
آؤ سنور جائیں مشکل یہ سفر ہے مسئلہ حل کرتے ہیں۔
حد اندر رہ کم از کم یہ گناہ زیادہ نہیں کر سکتے۔
جو پلے ہوں ظلمت میں کیا جانیں لدنی کی لذتیں یکسر۔
سامنا کب کرتے ہیں جھوٹے لوگ لبادہ نہیں کر سکتے۔
لوگ ڈرے رہتے ہیں پورا کوئی وعدہ نہیں کر سکتے۔
فصل پکاتے ہیں نقصان پھلوں کا مبادہ نہیں کر سکتے ۔
دل دھڑکے رہیں جام یہ چھلکے رہیں ساغر کھنکے رہیں ساقی۔
تازہ حسن رکھنا ہے بناؤ سنگھار کو سادہ نہیں کر سکتے۔
لا کے کہاں پر چھوڑا مدتوں ربط رہا پل بھر میں توڑا۔
میرا دل یکدم بوجھل ہے بوجھ یوں لادا نہیں کر سکتے۔
وقتی بے رحمی موجوں سے بچ جاتے ہیں لوگ سیانے اکثر۔
ہم بر وقت یہ فیصلہ کرتے ہیں وہ ارادہ نہیں کر سکتے۔
جب جذبات مچلتے ہیں ہم خود ہی سنبھل کر رکھتے قدم ہیں۔
طاقت رکھتے ہیں اتنی مگر سختی کا ارادہ نہیں کر سکتے۔
ہو سورج کی تمازت گھپ اندھیر ہو اب کچھ خوف نہیں ہے۔
اپنی آن پہ مر مٹ سکتے ہیں کر مر یادا نہیں کر سکتے۔
قوموں پر جو عذاب اترتے ہیں حق سے رو گردانی کرتے ہیں۔
غافل رہتے ہیں دامن اپنا جو کُشادہ نہیں کر سکتے۔
سوچ بنی ہے کیسا مزاج رچا ہے ہاتھ کو ہاتھ دبا کھائے۔
جب تک بات سمجھ میں نہ آئے سوال افادہ نہیں کر سکتے۔

2
28
حضرت برا مت مانیئے گا،
آپ کی بنیادی گرامر ، اصطلاحات اور ربط بین المصرعین درست نہیں ہیں-
آپ کے پاس خیال ہے مگر اس کو پیش کرنے کے لیئے زبان پہ عبور نہیں ہے -
پہلے زبان و بیان پہ توجہ دیں -
انشا اللہ آگے بڑھیں گے -


جی شکریہ۔آپ کی تنقید مجھے اچھا لکھنے کے لیے جلا بخشتی ہے۔

0