@@@@@@@@@@@@@@@@@@ |
سرِ شام میکدے میں |
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@ |
پینے میں مزا آج سرِ شام ہے کتنا |
خاموش سے میخانہ میں کہرام ہے کتنا |
جب سے یہ سنا ہے کہ سرِ بام وہ بیٹھا |
لگتا ہے یہ پیمانہ تو گل فام ہے کتنا |
بے عقل کہا سب نے ہے اس میں بھی اک راز |
دیوانہ بنا خود سے یہ الزام ہے کتنا |
یوں بیر نہ رکھ مجھ سے رقابت کے بہانے |
جس دل میں ہے وہ اس کا تو اکرام ہے کتنا |
اے کاش دے وہ مجھ کو بھی خود ہاتھ سے اک جام |
سچ بات یہی ہے کہ یہ انعام ہے کتنا |
مدہوش لگا آج تو زاہد بھی بلا کا |
کچھ فکر نہ اس کو کہ یوں بدنام ہے کتنا |
سب چھوڑ کے واعظ تو پڑا مست نشے میں |
سب دیکھ رہے ہیں کہ وہ ناکام ہے کتنا |
سب لوگ کھنچے آئے سبو دیکھ کے بے تاب |
یہ بادہ کشی کا بھی نشہ عام ہے کتنا |
جو روک رہا تھا مے کشی سے وہ ہے اب رند |
یوں راز کھلا ، ضبط میں وہ خام ہے کتنا |
دیکھے ہیں بھکاری بھی یہاں پر تو خریدار |
ان کو بھی نہ پرواہ کہ یاں دام ہے کتنا |
ساقی بھی مجھے پوچھ رہا ہے کہ ہے کچھ مے |
کیا خوب کہ ساقی یہ مے آشام ہے کتنا |
چپ رہ نہ سکا شیخ بھی یہ دیکھ کے رضوی |
وہ بول اٹھا ، جام دل آرام ہے کتنا |
&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&& |
کاوش: ابو الحسنین محمد فضلِ رسول رضوی |
2 ربیع الآخر1446ھ/ 6 اکتوبر 2 |
،2024ء |
بروز اتوار دن گیارہ بج کر پندرہ منٹ |
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::: |
معلومات