اے رشکِ حشر میرے دل کی اک چھوٹی گزارش ہے
اسے تیری نظر کے تیر سے آرام ہو جائے
کرے گا کیا بھلا اس شاعری کی نیک نامی کا
تمہارے عشق میں ہی ثانی کچھ بدنام ہو جائے
مزہ پا جائیں گے ہم سلسبیل و جامِ کوثر کا
ترے شیریں لبوں سے پھر ذرا دشنام ہو جائے
اسے سارے جہاں کی فتح ہے اور کامیابی ہے
جو تیرے تیر سے بھی بچنے میں ناکام ہو جائے
بتا کیوں اس کو ہو افسوس اب تیری محبت پر
تمہارا کفر بھی جو ثانی کو اسلام ہو جائے
شہادت پائیں ہم اب تیری آنکھوں کی کٹاری سے
خدائے پاک کا ہم پہ بھی یہ انعام ہو جائے
بنا چھیلے اسے یہ چوس کے ہی کھائیں گے ہر دم
ترا لب کم نصیبوں کا کبھی گر آم ہو جائے
شکستِ دو جہاں بھی اس کے آگے کامیابی ہے
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
گزارش ہے کہ میری بانہوں میں ایسے سما جائے
کہ جیسے ایک جیسے حرفوں کا ادغام ہو جائے
ستم کی دھوپ ہے ہم پر ذرا گیسو کے سائے کر
ترے شیریں لبوں کا تھوڑا سا اب جام ہو جائے
ازل سے الجھے گیسو اب سنور جائیں تو اچھا ہے
ہمیں ناکاروں سے شاید یہی اک کام ہو جائے
یہ حسن و عشق کی دنیا مری ٹھوکر میں رہتی ہے
ہاں چشمِ شوخ کی خاطر بھی یہ پیغام ہو جائے
بتا پھر کیا کرے گا گر کبھی یہ حادثہ ہو جائے
تجھے گر پھانسنے کو تیرا گیسو دام ہو جائے

0
40