جب شام ڈھلے گی تو پھر ایک یہ دیپ جلایا جاۓ گا۔ |
تب ابھرے سورج کو یہ نیا پیغام سنایا جاۓ گا۔ |
ان کو ایسے گر اب بتا دیں گے جن سے سب شاہی ملے گی۔ |
کہ محبت ہو جاۓ گی جب یہ اصول بتایا جاۓ گا۔ |
تب وقت ہی ایسا ہو گا کہ دل میں کوئی حسرت پھر نہ ہو گی۔ |
جب اپنے فن کا ان کو یہ اعجاز دکھایا جاۓ گا۔ |
اس نام محبت تو ہو گی وعدہ بھی کیا ہو گا نظر بھی ہو گی۔ |
اس رات کے پچھلے پہر میں اب من اپنا سلایا جاۓ گا۔ |
تم سے ہو گا اور نہ ہی تم سے یہ کام کرایا جاۓ گا۔ |
یہ بارِ گراں دستِ نازک سے نہ اب یوں ہٹایا جاۓ گا۔ |
کہ ادھورا قصہ پورا ہو گا یوں وقت نبھایا جاۓ گا۔ |
آؤ نئے وقت کا یہ نقطہ ان کو سمجھایا جاۓ گا۔ |
بس چپ کرو تم خاموش ہو سو بھی جاؤ اب تو بس بھی کرو۔ |
بھوکے بچے کو جب لوریاں دے کر پھر سے سلایا جاۓ گا۔ |
اب اپنا سارا جذبہ محبت پھر کہاں تک لے کر پھروں میں۔ |
چپ کر تعویذ ہی صبر ہو گا جو بچے کو پلایا جاۓ گا۔ |
پھر پیروی کر کہ محبت میں چلو گے قدموں کے نشانوں پر۔ |
ہر سو دھواں اٹھے گا تو پھر کیا ہے جو بچایا جاۓ گا۔ |
تب اور ہی سہنے کی اب تاب کہاں سے لاؤ گے پھر تم۔ |
اب جب جلتے ہوۓ سورج کو ہاتھ دکھایا جاۓ گا۔ |
میرے جذبات ہیں فرحت بخش امنگِ دل کے مترجم ہیں۔ |
دامن چھوٹے گا ان سے ہم سے اب نہ چھڑایا جاۓ گا۔ |
کہ محبت کر اب اور محبت عام ہو سلسلہ چل نکلے۔ |
جب جام پیو گے تو پھر کیا ہے جو من کو پلایا جاۓ گا۔ |
پھر ان مخمور سی آنکھوں سے جو مل جاۓ مجھے اب ساقی۔ |
اب اور نہ مے خانے کے لیے پھر اور تڑپایا جاۓ گا۔ |
کہ محبت کر شہرت پھر عام ذکر اب صبح ہو شام کریں۔ |
میں تجھ سے بچھڑ جاؤں ایسا لمحہ نہ خدایا لاۓ گا۔ |
اب ان کو منا لیا جاۓ اور نہ پھر ہی ستایا جاۓ گا ۔ |
ہم خود چلے جائیں گے جب پیار سے پھر سے بلایا جاۓ گا۔ |
جب آیا نہ جاۓ ہےان سے سنبھلا نہ جاۓ ہے مجھ سے پھر سے۔ |
ان سے نہ سنا جاۓ گا نہ ہی کچھ مجھ سے سنایا جاۓ گا۔ |
اب جب کہ اشاروں کنایوں میں جو بات ہو گی چھپ کے چھپا کے۔ |
تو پھر اپنے دل کا اب حال ہی کیسے بتایا جاۓ گا۔ |
اس طرح کی ناراضی ہو گئی ہے اب ہم سے پھر سے جب سے۔ |
وہ لاکھ ہی پوچھیں مگر ہر گز کچھ اور بتایا جاۓ گا۔ |
ڈوبا جاۓ کودا جاۓ ہے معاملہ اب یہ عجب ہے سب۔ |
جو پانی بہایا جاۓ گا وہ واپس نہ ہی لایا جاۓ گا۔ |
اب یہ قصہ وہ نہیں ہے جو سب سن کے سنا کے زبانی پھر۔ |
جس کو بھی سناؤ گے اور سنا جاۓ نہ سنایا جاۓ گا۔ |
معلومات