الفت کے وہ خداؤں سے باتیں کرنی ہیں |
کچھ حسن کی بلاؤں سے باتیں کرنی ہیں |
اب ہم کو زندگی بھر کچھ بولنا نہیں |
اب ہم نے بس نگاہوں سے باتیں کرنی ہیں |
کچھ دیر یہ حرم میں رک جا تے ہیں ذرا |
اپنے ہمیں گناہوں سے باتیں کرنی ہیں |
میں ساتھ رات کے خود میں ڈوب اب رہا |
تاروں مجھے خلاؤں سے با تیں کرنی ہیں |
اب تو کہاں کسی کے فون اور وہ باتیں ہیں |
اب بس ہمیں کتابوں سے باتیں کرنی ہیں |
اک گل عبید یا تحفہ ہی خرید لاؤ |
ہم کو تری وفاؤں سے باتیں کرنی ہیں |
معلومات