زندگی کے میلے بس، یونہی چلتے رہتے ہیں
ہم چھُپا کے سارے غم، یونہی ہنستے رہتے ہیں
روگ ہم محبت کا، کیوں لگا ہی بیٹھے ہیں
جینے کی تمنّا میں، روز مرتے رہتے ہیں
کُوچے میں ہم اُنکے، اس آرزو میں پھرتے ہیں
اِک نظر عنایت کو، راہ تکتے رہتے ہیں
لاشعور میں اُنکا، یوں شعور رکھتے ہیں
بے خودی میں ہم اُنکا، نام جپتے رہتے ہیں
یار جب ہیں آتے، میری مزاج پُرسی کو
دیکھ کے مِری حالت، سر کو دُھنتے رہتے ہیں
یہ جُنوں نجانے ہی، گُل کیا کھلائے گا
آہیں سن کے میری کیوں، لوگ ڈرتے رہتے ہیں

0
52