| زندگی کے میلے بس، یونہی چلتے رہتے ہیں |
| ہم چھُپا کے سارے غم، یونہی ہنستے رہتے ہیں |
| روگ ہم محبت کا، کیوں لگا ہی بیٹھے ہیں |
| جینے کی تمنّا میں، روز مرتے رہتے ہیں |
| کُوچے میں ہم اُنکے، اس آرزو میں پھرتے ہیں |
| اِک نظر عنایت کو، راہ تکتے رہتے ہیں |
| لاشعور میں اُنکا، یوں شعور رکھتے ہیں |
| بے خودی میں ہم اُنکا، نام جپتے رہتے ہیں |
| یار جب ہیں آتے، میری مزاج پُرسی کو |
| دیکھ کے مِری حالت، سر کو دُھنتے رہتے ہیں |
| یہ جُنوں نجانے ہی، گُل کیا کھلائے گا |
| آہیں سن کے میری کیوں، لوگ ڈرتے رہتے ہیں |
معلومات